قرآن و سنت کا باہمی تعلق اور ضرورت
اسلام ایک ایسا کامل و جامع دین ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید اور اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی سنت مبارکہ کے ذریعے انسانیت کی رہنمائی کے لیے بھیجا۔ قرآن اللہ کا کلام ہے جبکہ سنت نبی کریم ﷺ کی تعلیمات، اقوال اور افعال کا عملی نمونہ ہے۔ دونوں کا باہمی تعلق ایسا ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ کرنا ممکن ہی نہیں۔ اگر قرآن نظریہ ہے تو سنت اس نظریے کی عملی صورت ہے، اگر قرآن اصول بیان کرتا ہے تو سنت ان اصولوں کو سمجھنے اور اپنانے کا طریقہ بتاتی ہے۔
قرآن کی حیثیت
قرآن مجید ہدایت کی سب سے بڑی اور بنیادی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایمان، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور معاشرتی اصول بیان کر دیے ہیں۔ لیکن بہت سے احکام ایسے ہیں جن کی تفصیل قرآن میں مختصر یا اجمالی طور پر دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر:
-
قرآن کہتا ہے: “نماز قائم کرو” لیکن اس کی رکعات، اوقات اور طریقہ قرآن میں تفصیل کے ساتھ نہیں ہے۔
-
قرآن حکم دیتا ہے: “زکٰوۃ دو” لیکن نصابِ زکٰوۃ، شرح اور تقسیم کے اصول سنت سے ثابت ہیں۔
-
قرآن روزے اور حج کا حکم دیتا ہے لیکن ان کی عملی صورت نبی کریم ﷺ نے اپنے عمل اور اقوال سے واضح فرمائی۔
یعنی قرآن اصول دیتا ہے اور سنت ان اصولوں کی تفصیل اور وضاحت کرتی ہے۔
سنت کی حیثیت
سنت دراصل قرآن کا عملی نمونہ ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ہر قول، عمل اور فیصلہ قرآن کی روشنی میں ہوتا۔ آپ ﷺ کی زندگی ہی قرآن کی تفسیر تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب نبی کریم ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: “ان کا اخلاق قرآن تھا” (مسند احمد)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت قرآن کا عملی ترجمہ ہے۔ اگر قرآن حکم دیتا ہے تو سنت اس حکم کو سمجھنے اور کرنے کا طریقہ بتاتی ہے۔
قرآن و سنت کا باہمی تعلق
قرآن اور سنت کا تعلق ایک دوسرے سے گہرے ربط اور توازن کا ہے۔ اس تعلق کو ہم چند نکات میں سمجھ سکتے ہیں:
1. قرآن اور سنت ایک دوسرے کے تکملہ ہیں
قرآن دین کا بنیادی ماخذ ہے اور سنت اس کی وضاحت ہے۔ اگر قرآن قانون ہے تو سنت اس قانون کی تشریح ہے۔
2. سنت قرآن کی شرح اور تفسیر ہے
جہاں قرآن اجمالی حکم دیتا ہے، سنت وہاں تفصیل بیان کرتی ہے۔
مثال: نماز، زکٰوۃ، حج، روزہ سب قرآن میں مذکور ہیں مگر ان کی تفصیلات صرف سنت سے معلوم ہوتی ہیں۔
3. سنت قرآن کے اجمال کی وضاحت کرتی ہے
قرآن نے بہت سے مسائل کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نبی ﷺ نے ان اجمالی احکام کو تفصیل سے سمجھایا۔
4. سنت قرآن کے اطلاق (Application) کو واضح کرتی ہے
قرآن صرف حکم دیتا ہے، لیکن سنت اس حکم کو عملی زندگی میں اپلائی کرنے کا طریقہ بتاتی ہے۔
سنت کے بغیر قرآن سمجھنے میں مشکلات
اگر کوئی شخص صرف قرآن پر اکتفا کرے اور سنت کو چھوڑ دے تو وہ دین کا صحیح تصور حاصل نہیں کر سکتا۔
مثال کے طور پر:
-
صرف قرآن پڑھ کر کوئی یہ نہیں جان سکتا کہ فجر کی نماز دو رکعت فرض ہے۔
-
صرف قرآن پڑھ کر یہ نہیں معلوم ہوتا کہ زکٰوۃ کس شرح سے اور کس نصاب پر واجب ہوتی ہے۔
-
صرف قرآن سے روزہ تو معلوم ہوتا ہے لیکن سحری، افطاری، تراویح، اعتکاف جیسے اعمال سنت سے ثابت ہیں۔
لہٰذا سنت کے بغیر قرآن کا فہم اور اس پر عمل کرنا نامکمل ہے۔
قرآن و سنت کی ضرورت
-
دین کو مکمل سمجھنے کے لیے
قرآن نظریہ دیتا ہے اور سنت اس نظریے کی عملی شکل دکھاتی ہے۔ دونوں کے بغیر دین ادھورا رہ جائے گا۔ -
شریعت کے احکام پر عمل کے لیے
قرآن میں زیادہ تر احکام اصولی انداز میں ہیں۔ ان پر عمل ممکن نہیں جب تک سنت نہ ہو۔ -
اخلاقی اور عملی زندگی کے لیے
قرآن اخلاقی اصول دیتا ہے لیکن عملی کردار نبی ﷺ کی زندگی سے ہی ملتا ہے۔ -
امت کے اتحاد کے لیے
قرآن و سنت پر عمل کرنے سے ہی امت ایک مرکز پر جمع رہ سکتی ہے۔ صرف قرآن یا صرف سنت کو پکڑنے سے گمراہی پیدا ہوتی ہے۔
صحابہ کرام کا رویہ
صحابہ کرام قرآن و سنت دونوں کو لازم پکڑتے تھے۔ وہ نبی ﷺ کی ہر بات کو دین سمجھ کر یاد کرتے، لکھتے اور اس پر عمل کرتے۔ جب بھی کسی مسئلے میں اختلاف ہوتا تو وہ قرآن اور سنت کی طرف رجوع کرتے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
“جب بھی کوئی مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہم سب سے پہلے قرآن دیکھتے، اگر اس میں نہ ملتا تو سنت رسول ﷺ کی طرف رجوع کرتے۔”
امت مسلمہ کے لیے پیغام
آج کے دور میں کچھ لوگ صرف قرآن کو کافی سمجھتے ہیں اور سنت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یہ رویہ خطرناک ہے۔ قرآن اور سنت دونوں دین کے لازمی اور یکساں ذرائع ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو چھوڑ دینا گمراہی ہے۔ امت کو چاہیے کہ قرآن اور سنت دونوں کو مضبوطی سے تھامے۔
نتیجہ
قرآن اور سنت ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور سنت اس کلام کی عملی صورت۔ قرآن کے بغیر سنت سمجھ میں نہیں آ سکتی اور سنت کے بغیر قرآن پر عمل ممکن نہیں۔ دین کی اصل روح یہی ہے کہ ہم قرآن اور سنت دونوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور ان کی روشنی میں اپنی انفرادی، اجتماعی اور معاشرتی زندگی گزاریں۔
0 Comments