Advertisement

Responsive Advertisement

امام بخاری اور صحیح بخاری کی خصوصیات

 اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار محدثین اور علماء گزرے ہیں جنہوں نے دین کی حفاظت، قرآن و سنت کی خدمت اور شریعت کے احکامات کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ انہی عظیم المرتبت ہستیوں میں ایک نام امام بخاریؒ کا ہے، جن کی تصنیف الجامع الصحیح، جو عام طور پر صحیح بخاری کے نام سے معروف ہے، قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ معتبر اور مستند کتاب سمجھی جاتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم ذخیرہ ہے بلکہ امت مسلمہ کے لیے ہدایت اور شریعت کی بنیادوں میں ایک اہم سنگ میل بھی ہے۔

اس مضمون میں ہم امام بخاریؒ کی شخصیت، ان کی زندگی، علمی مقام، صحیح بخاری کی تدوین اور اس کی نمایاں خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔


امام بخاریؒ کی پیدائش اور ابتدائی زندگی



امام بخاری کا پورا نام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ بن بردز بہ بخاری ہے۔ آپ کی پیدائش 13 شوال 194 ہجری کو بخارا (موجودہ ازبکستان) میں ہوئی۔ آپ کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو دین اور علم سے محبت رکھنے والا تھا۔

بچپن ہی سے آپ غیر معمولی ذہانت اور فہم و فراست کے مالک تھے۔ بہت کم عمری میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا اور پھر احادیث کے حفظ و جمع کرنے کی طرف راغب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی حافظہ عطا فرمایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ ایک نظر میں پورا صفحہ یاد کر لیتے تھے۔


علمی سفر اور اساتذہ

امام بخاری نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ علم حدیث کے حصول کے لیے سفر میں گزارا۔ آپ نے بخارا سے تعلیم کا آغاز کیا اور پھر مختلف علمی مراکز مثلاً مکہ، مدینہ، شام، بغداد، بصرہ، کوفہ اور مصر کا سفر کیا۔

آپ نے تقریباً ہزار کے قریب اساتذہ سے حدیث پڑھی۔ ان میں بڑے نامور محدثین شامل تھے جیسے امام احمد بن حنبل، علی بن المدینی، یحییٰ بن معین اور دیگر جلیل القدر علماء۔

امام بخاریؒ نے اپنی محنت اور علم دوستی کے باعث کم عمری میں ہی علم حدیث میں بڑا مقام حاصل کر لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ بغداد پہنچے تو وہاں کے محدثین نے آپ کا امتحان لینے کے لیے احادیث کے اسناد اور متن میں تبدیلیاں کر کے آپ کے سامنے پیش کیں، لیکن آپ نے ہر غلطی کو واضح کر دیا اور اصل روایت درست طریقے سے بیان کر دی۔ اس واقعہ کے بعد سب نے آپ کی غیر معمولی یادداشت اور علمی مقام کا اعتراف کیا۔


صحیح بخاری کی تدوین

امام بخاری نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الجامع الصحیح کی تدوین تقریباً 16 سال کی مدت میں مکمل کی۔ آپ نے احادیث کی چھان بین اور انتخاب میں انتہائی سخت معیار اختیار کیا۔

کہا جاتا ہے کہ آپ نے چھ لاکھ کے قریب احادیث کو محفوظ کیا تھا، مگر ان میں سے صرف تقریباً 7 ہزار احادیث (تکرار سمیت) کو اپنی کتاب میں شامل کیا۔ تکرار کے بغیر یہ تعداد تقریباً 2600 احادیث بنتی ہے۔

صحیح بخاری کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ امام بخاری ہر حدیث کو درج کرنے سے پہلے غسل کرتے، دو رکعت نماز پڑھتے اور استخارہ کرتے، پھر حدیث کو شامل کرتے۔ اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے کس قدر احتیاط اور اخلاص کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی۔


صحیح بخاری کی خصوصیات

صحیح بخاری کو دیگر حدیثی مجموعوں پر جو خصوصیات فضیلت دیتی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

1. صحیح ترین کتاب بعد از قرآن

علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں:
"امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب صحیح بخاری ہے۔"

2. سخت معیار برائے انتخاب حدیث

امام بخاری نے حدیث شامل کرنے کے لیے درج ذیل شرائط مقرر کیں:

  • راوی کا عادل اور ضابط ہونا

  • راوی کا اپنے شیخ سے ملاقات اور روایت سننے کا ثبوت ہونا

  • سند کا مسلسل اور متصل ہونا

  • متن اور سند دونوں کا ہر قسم کے شذوذ اور علت سے پاک ہونا

یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری میں شامل ہر حدیث کو اعلیٰ درجہ کی صحت حاصل ہے۔

3. فقہی ابواب

صحیح بخاری صرف احادیث کا مجموعہ نہیں بلکہ فقہ اسلامی کا ایک عظیم ماخذ بھی ہے۔ امام بخاری نے ابواب قائم کر کے مسائل کی وضاحت کی ہے۔ ان کے تراجم الابواب میں فقہی نکات، اجتہادی بصیرت اور قرآن و سنت کی عمیق فہم جھلکتی ہے۔

4. جامعیت

صحیح بخاری ایک جامع کتاب ہے جس میں عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، تاریخ، جہاد، طب، تفسیر اور دیگر موضوعات پر احادیث شامل ہیں۔ اس جامعیت کے باعث یہ ہر دور میں علماء اور عوام دونوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔

5. روحانی تعلق

جیسا کہ ذکر ہوا، امام بخاری ہر حدیث شامل کرنے سے پہلے وضو اور نفل ادا کرتے تھے۔ اس روحانی وابستگی نے صحیح بخاری کو ایک نورانی اور برکت والی کتاب بنا دیا ہے۔

6. امت مسلمہ میں قبولیت

صحیح بخاری کو دنیا بھر کے علماء نے قبول کیا اور ہر دور میں اس کی شرحیں لکھی گئیں۔ صرف شرحوں کی تعداد ہی سینکڑوں میں ہے، جن میں فتح الباری لابن حجر عسقلانی سب سے مشہور اور معتبر شرح مانی جاتی ہے۔

7. غیر معمولی ترتیب

امام بخاری نے صحیح بخاری کو نہایت حکمت اور ترتیب کے ساتھ مرتب کیا۔ بعض اوقات باب کے عنوان ہی سے مسئلے کی وضاحت ہو جاتی ہے، چاہے اس کے تحت آنے والی حدیث میں اس کا ذکر نہ ہو۔ اس سے امام بخاری کی علمی گہرائی اور اجتہادی قوت ظاہر ہوتی ہے۔


صحیح بخاری کی اہم شروح

جیسا کہ ذکر ہوا، صحیح بخاری پر بے شمار علماء نے شرحیں لکھی ہیں۔ ان میں چند مشہور درج ذیل ہیں:

  • فتح الباری از حافظ ابن حجر عسقلانی

  • عمدة القاری از بدر الدین عینی

  • شرح ابن بطال

  • ارشاد الساری از قسطلانی

ان شروح نے صحیح بخاری کے فہم کو مزید آسان اور عام کیا۔


امام بخاری کی خدمات اور مقام

امام بخاریؒ صرف ایک محدث ہی نہیں بلکہ ایک عظیم مربی، فقیہ اور مصلح بھی تھے۔ آپ کی کتاب نے امت مسلمہ کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا مستند ذخیرہ دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔

آپ کی زندگی سادگی، تقویٰ اور علم دوستی کا پیکر تھی۔ آپ نے دنیاوی عیش و آرام کو ترک کر کے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔


امام بخاری کی وفات

امام بخاریؒ نے اپنی زندگی کا آخری وقت بخارا سے قریب ایک گاؤں "خرتنگ" میں گزارا۔ آپ کی وفات 256 ہجری کو ہوئی۔ آپ کا مزار آج بھی وہاں موجود ہے اور امت مسلمہ آپ کو عقیدت و احترام کے ساتھ یاد کرتی ہے۔


نتیجہ

امام بخاری اور ان کی تصنیف صحیح بخاری اسلامی تاریخ کا ایک لازوال سرمایہ ہیں۔ امام بخاریؒ نے جس محنت، اخلاص اور احتیاط کے ساتھ احادیث نبوی کو جمع کیا، وہ رہتی دنیا تک امت مسلمہ کے لیے روشنی اور ہدایت کا ذریعہ رہے گا۔ صحیح بخاری نہ صرف ایک حدیثی مجموعہ ہے بلکہ فقہ، تاریخ، اخلاقیات اور اسلامی تہذیب کا ایک زندہ مظہر بھی ہے۔

اس عظیم کتاب کا مطالعہ ہمیں نہ صرف دین کی اصل تعلیمات سے روشناس کراتا ہے بلکہ یہ ہمارے ایمان کو تازہ اور مضبوط کرتا ہے۔ اسی لیے علماء کا کہنا ہے کہ قرآن کے بعد اگر کسی کتاب سے سب سے زیادہ ہدایت اور نور حاصل کیا جا سکتا ہے تو وہ صحیح بخاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments