Advertisement

Responsive Advertisement

سنت کی اقسام: قولی، فعلی اور تقریری | مکمل وضاحت

اسلام ایک ایسا جامع دین ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کے لیے مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآنِ مجید اس دین کی بنیادی اور اصل ماخذ ہے، جبکہ رسول اکرم ﷺ کی سنت قرآن کی عملی تفسیر اور تشریح ہے۔ آپ ﷺ کے اقوال، افعال اور اعمالِ مبارکہ امت کے لیے ایسا روشن مینار ہیں جو راہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ علمائے کرام نے سنت کی تین بنیادی اقسام بیان کی ہیں: قولی، فعلی اور تقریری سنت۔ ان تینوں اقسام کو سمجھنا نہ صرف دینی علم کے لیے ضروری ہے بلکہ عملی زندگی میں دین کو اپنانے کے لیے بھی لازمی ہے۔




سنت کی تعریف

لغوی اعتبار سے "سنت" کا مطلب ہے "طریقہ، راہ یا طرزِ عمل"۔ شریعت کی اصطلاح میں سنت سے مراد رسول اکرم ﷺ کے تمام اقوال، افعال اور آپ ﷺ کی خاموش منظوری ہے۔ قرآنِ مجید کے بعد سنت ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے دین کی عملی شکل سامنے آتی ہے۔


سنت کی اقسام

1. سنت قولی

سنت قولی سے مراد وہ اقوال و ارشادات ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے۔ یہ اقوال دین کے بنیادی احکام، اخلاقیات، معاملات اور زندگی کے تمام پہلوؤں کے متعلق ہیں۔

مثالیں:

  • آپ ﷺ کا فرمان: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" (بخاری)۔ یہ حدیث نیت کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔

  • ایک اور مثال: "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں" (مسلم)۔ یہ فرمان اسلامی معاشرت کے اصول بتاتا ہے۔

خصوصیات:

  • سنت قولی براہِ راست قانون اور اصولی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

  • فقہی احکام اور عقائد کی بہت بڑی بنیاد انہی اقوال پر قائم ہے۔

  • علماء کرام نے سنت قولی کو حدیث کے ذخائر میں محفوظ کر کے امت تک پہنچایا۔


2. سنت فعلی

سنت فعلی وہ اعمال اور افعال ہیں جو رسول اکرم ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں کیے۔ آپ ﷺ کے افعال امت کے لیے عملی نمونہ ہیں۔

مثالیں:

  • آپ ﷺ کی نماز پڑھنے کا طریقہ۔ آپ نے فرمایا: "نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو" (بخاری)۔

  • روزہ رکھنے، حج کرنے، وضو کرنے اور دیگر عبادات کے طریقے سنت فعلی کے ذریعے ہم تک پہنچے۔

  • آپ ﷺ کی تواضع، مہمان نوازی، صبر، شجاعت اور دیگر اخلاقی اوصاف بھی سنت فعلی کی مثال ہیں۔

خصوصیات:

  • سنت فعلی دین کو عملی صورت دیتی ہے۔

  • قرآن کے احکام کی عملی تفسیر آپ ﷺ کے افعال میں نظر آتی ہے۔

  • عبادات اور معاملات کی تفصیلات زیادہ تر سنت فعلی سے حاصل ہوتی ہیں۔


3. سنت تقریری

سنت تقریری سے مراد وہ امور ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کے سامنے کیے اور آپ ﷺ نے ان پر خاموشی اختیار کی یا ان کی منظوری دے دی۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ عمل جائز اور درست ہے۔

مثالیں:

  • حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ضب (گوہ) کھائی۔ رسول اللہ ﷺ نے خود نہیں کھائی لیکن منع بھی نہیں فرمایا۔ اس خاموشی کو سنت تقریری کہا جاتا ہے۔

  • صحابہ کرام نے مختلف اجتہادی مسائل پر عمل کیا، اور آپ ﷺ نے جب اس پر سکوت فرمایا تو وہ عمل جائز قرار پایا۔

خصوصیات:

  • سنت تقریری دین میں وسعت اور لچک کا اظہار کرتی ہے۔

  • اس کے ذریعے امت کو اجازت ملتی ہے کہ وہ نئے مسائل میں اجتہاد کرے۔

  • یہ دین کی تکمیل میں آسانی اور رحمت کا پہلو ظاہر کرتی ہے۔


سنت کی اقسام کی اہمیت

  1. سنت قولی دین کے بنیادی اصول اور قوانین واضح کرتی ہے۔

  2. سنت فعلی دین کو عملی زندگی میں قابلِ عمل بناتی ہے۔

  3. سنت تقریری دین میں اجتہاد اور وسعت کی راہ ہموار کرتی ہے۔

ان تینوں اقسام کے بغیر دین کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ قرآن مجید کے بہت سے احکام کی عملی وضاحت ہمیں انہی اقسام کے ذریعے ملتی ہے۔


قرآن و سنت کا تعلق

قرآن اور سنت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ قرآن عمومی ہدایات دیتا ہے جبکہ سنت ان کی وضاحت اور عملی شکل پیش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر:

  • قرآن میں نماز کا حکم ہے لیکن طریقہ سنت فعلی سے معلوم ہوتا ہے۔

  • قرآن میں زکوٰۃ کا حکم ہے لیکن اس کی تفصیلات سنت کے ذریعے بیان ہوئی ہیں۔


عصرِ حاضر میں سنت کی ضرورت

آج کے دور میں جب مختلف افکار اور نظریات دین کو چیلنج کر رہے ہیں، سنت کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ سنت کے بغیر قرآن کی عملی شکل سامنے نہیں آ سکتی۔

  • جدید مسائل میں اجتہاد کے لیے سنت کی روشنی ضروری ہے۔

  • سنت ہی دین کی حقیقی روح کو باقی رکھتی ہے۔

  • نوجوان نسل کو دین کی اصل سمجھانے کے لیے سنت کا مطالعہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔


نتیجہ

سنت کی تین اقسام یعنی قولی، فعلی اور تقریری، دین اسلام کو مکمل اور جامع بناتی ہیں۔ ان کے ذریعے ہمیں نہ صرف قرآن کی وضاحت ملتی ہے بلکہ عملی زندگی کے تمام شعبوں کے لیے واضح رہنمائی بھی حاصل ہوتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی سنت پر عمل ہی اصل کامیابی کا ذریعہ ہے اور یہی ہماری دنیا و آخرت کی فلاح کی ضمانت ہے۔

Post a Comment

0 Comments