قرآن مجید: اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام
قرآن مجید وہ عظیم کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمائی۔ یہ صرف ایک مذہبی صحیفہ نہیں بلکہ ایک ایسا دستورِ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ عقائد، عبادات، اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، عدل و انصاف، حتیٰ کہ فرد اور معاشرے کی ہر ضرورت کا جواب قرآن میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بارے میں فرمایا:
“ھُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ” (البقرہ: 185)
“یہ قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے، اور ہدایت و حق و باطل کو جدا کرنے والی واضح دلیلیں ہیں۔”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہی کامیابی کی اصل کنجی ہے۔
قرآن کی تلاوت اور اس کا حق
قرآن کی تلاوت عبادت ہے، لیکن اس کا اصل حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے اور اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“قرآن کو پڑھو اور اس پر عمل کرو، اس کو چھوڑ کر بے عملی اختیار نہ کرو، ورنہ تمہاری گردنیں ماری جائیں گی۔” (مسند احمد)
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:
“تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔” (صحیح بخاری)
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ قرآن کا حق صرف یہ نہیں کہ اسے پڑھا جائے بلکہ اس کے معانی اور احکام کو سمجھ کر دوسروں تک پہنچایا جائے۔
تفسیر قرآن کیوں ضروری ہے؟
قرآن اگرچہ فصیح عربی زبان میں نازل ہوا، مگر اس کے معانی میں گہرائی اور حکمت ایسی ہے کہ صرف سطحی پڑھنے سے مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ صحابہ کرامؓ جیسے عرب اہل زبان بھی کئی مواقع پر نبی ﷺ سے وضاحت پوچھا کرتے تھے۔
مثال کے طور پر:
-
قرآن نے نماز کا حکم دیا، لیکن نماز کے طریقے، رکعات کی تعداد اور اذکار کی وضاحت حدیث سے ملی۔
-
قرآن نے زکوٰۃ کا حکم دیا، لیکن اس کے نصاب، شرح اور مصارف سنتِ نبوی سے معلوم ہوئے۔
لہٰذا قرآن کے صحیح فہم کے لیے تفسیر ناگزیر ہے۔
تفسیر قرآن کے بنیادی ذرائع
-
قرآن کی تفسیر قرآن سے
قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی وضاحت کرتا ہے۔ جیسے سورۃ الفاتحہ میں دعا ہے: “اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ” (ہمیں سیدھا راستہ دکھا)۔ اس کی وضاحت سورۃ الانعام میں ہے: “اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے، پس اسی پر چلو”۔ -
تفسیر بالحدیث
حدیث قرآن کی سب سے بڑی مفسر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے کئی آیات کی وضاحت فرمائی، جیسے “الظلم” کے معنی “شرک” سے کیے۔ -
صحابہ کرام کی تفاسیر
حضرت ابن عباسؓ کو “ترجمان القرآن” کہا جاتا ہے۔ آپ نے نبی ﷺ سے براہِ راست قرآن کی تشریح سیکھی۔ -
تابعین و مفسرین کی خدمات
تابعین اور بعد کے مفسرین نے قرآن فہمی میں عظیم الشان خدمات انجام دیں۔ مشہور تفاسیر میں:
-
تفسیر طبری (امام طبریؒ)
-
تفسیر کبیر (امام رازیؒ)
-
تفسیر قرطبی (امام قرطبیؒ)
-
تفسیر ابن کثیر (علامہ ابن کثیرؒ)
-
برصغیر کی تفاسیر: شاہ ولی اللہؒ، شاہ عبدالقادرؒ اور مفتی شفیع عثمانیؒ (معارف القرآن)
تفسیر کے اصول اور احتیاطیں
-
سیاق و سباق کا لحاظ: آیت کے نزول کے پس منظر اور موقع کو سمجھے بغیر تفسیر ناقص رہتی ہے۔
-
لغتِ عربی پر عبور: قرآن فصیح عربی میں نازل ہوا ہے، اس لیے عربی زبان کے قواعد اور محاورات کا جاننا ضروری ہے۔
-
سنتِ نبوی کو معیار بنانا: کوئی بھی تفسیر حدیث و سنت سے جدا ہو کر معتبر نہیں رہ سکتی۔
-
اپنی رائے سے تفسیر سے اجتناب: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے، چاہے وہ درست ہو، تب بھی غلطی پر ہے۔” (ابوداؤد)
-
علماء و مفسرین کی رہنمائی لینا: قرآن کا علم سمندر ہے، اس لیے بڑے علماء کی لکھی گئی تفاسیر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔
قرآن فہمی کی برکات
1. ایمان میں اضافہ
قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے ایمان تازہ ہوتا ہے اور انسان کا اللہ پر بھروسہ بڑھتا ہے۔
2. اخلاقی تربیت
قرآن انسان کو سچائی، عدل، دیانت اور عفت و پاکدامنی کی تعلیم دیتا ہے۔
3. اجتماعی اصلاح
قرآن کے ذریعے خاندانوں میں محبت، معاشرے میں عدل اور ریاستوں میں انصاف قائم ہو سکتا ہے۔
4. آخرت کی کامیابی
قرآن کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والا ہی جنت کا حقدار بنتا ہے۔
صحابہ کرام اور قرآن فہمی
صحابہ کرامؓ قرآن کو صرف پڑھتے نہیں تھے بلکہ اس پر غور کرتے اور اپنی زندگی میں اس پر عمل کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے سورۃ البقرہ کو کئی سال میں مکمل کیا کیونکہ وہ ہر آیت پر رک کر اس کے تقاضوں کو پورا کرتے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے:
“ہم جب قرآن کی دس آیات سیکھتے تو ان پر عمل کیے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے۔”
عصرِ حاضر میں قرآن فہمی کی ضرورت
آج کے دور میں مسلمان بے شمار فتنوں کا شکار ہیں:
-
مادیت پرستی
-
الحاد اور گمراہی
-
مغربی تہذیب کی اندھی تقلید
-
اسلامی تعلیمات سے دوری
ایسے ماحول میں قرآن کا مطالعہ اور اس کی تفسیر کو سمجھنا اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔
عملی مثالیں:
-
اگر معاشرتی جھگڑے ہوں تو قرآن کی تعلیم “وَاصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ” (اپنے آپس کے تعلقات درست کرو) حل فراہم کرتی ہے۔
-
اگر معیشت میں بددیانتی ہو تو قرآن کہتا ہے: “وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ” (ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے)۔
-
اگر سیاست میں ظلم اور ناانصافی ہو تو قرآن حکم دیتا ہے: “اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ” (اللہ انصاف اور احسان کا حکم دیتا ہے)۔
نتیجہ
قرآن مجید دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ لیکن اس کی صحیح سمجھ کے لیے تفسیر سے رجوع ضروری ہے۔ مسلمان جب تک قرآن کو سمجھ کر اس پر عمل کریں گے تب تک وہ دنیا کی قیادت کریں گے، اور جب اس کو چھوڑ دیں گے تو ذلت و پستی کا شکار رہیں گے۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ قرآن کی تلاوت کرے، معتبر تفاسیر سے اس کا فہم حاصل کرے، اور اپنی عملی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالے۔ یہی اصل کامیابی ہے۔
0 Comments